حضرت علامہ جلال الدین رومی رحمتہ اللّٰہ علیہ ایک واقعہ بیّان فرماتے ہیں کہ ایک صوفی بزرگ ذکر خدا میں مصروف تھے اور شب بیداری یعنی رات جاگنا کر رہے تھے۔ شیطان ان کے پاس آیا اور کہا ”اے صوفی خاموش رہ، تیرے ذکر کا کیا فاٸدہ جب اللّٰہ کی طرف سے جواب نہیں آ رہا ۔
صوفی دلبرداشتہ ہو کر سو گیا ۔ خواب میں حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوٸی،آپ علیہ السلام نے فرمایا ”اللہ پاک کے زکر سے کیوں غافل ہو گٸے ہو“
صوفی بولا”اللّٰہ کی طرف سے جواب نہیں آرہا اسلٸے ذکر چھوڑ دیا خضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا ”اللّہ فرماتا ہے اے بندے! تیرا اللّٰہ کہنا ہی میرا جواب ہے جب تک تیرا پہلی بار اللّٰہ کہنا قبول نہیں ہوتا ، اس وقت تک میں دوبارہ کہنے کی توفیق نہیں دیتا“۔
📝اضافی کمینٹری
انسان بہت ناشکرا ہے وہ ذرا ذرا سی بات پر اللہ پاک سے مایوس ہو جاتا ہے اور شکوے شکایت کرنے لگتا ہے پر وہ کریم ربّ اپنی عطاٸیں نہیں روکتا۔ اور کبھی کبھار اسکی سرزنش و بہتری کے لٸے اس سے کوٸی نعمت روک لیتا ہے کیونکہ وہ بہتر جاننے والا ہے کسے کس وقت کیا دینا ہے۔ مثلاََ کسی کی بہتری غربت میں ہے اگر ربّ اسے بنا مانگے عطا کردے تو شاید وہ غرور و تکبر کرکے اور نعمتوں کی نا قدری کرکے آخرت کے عذاب کو دعوت دے سکتا ہے تو اسکا عیب جان کر اسے غریب ہی رکھا، تو جب وہ محنت کرکے کوٸی مقام پاۓگا تو وہ تکبر اور نعمتوں کی نا قدری سے محفوظ رہے اور وہ نعمت و مرتبہ اس کے لہے وبال نہ بن جاۓ۔
