Monday, March 17, 2025

*کمفرٹ زون،ایک خطرناک نشہ


 مینڈک بڑے مزے سے تالاب میں زندگی گزاررہا تھا لیکن ایک دن اس کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔اس کو بھوک لگی ہوئی تھی۔کافی دیر سے کھانے کے لیے کچھ نہیں مل رہا تھا۔خوراک کی تلاش میں وہ پانی سے نکل کر کنارے پرآیاتو وہاں ایک پتھر پر کھانے کی چیز پڑی ہوئی تھی ۔وہ بڑاخوش ہوا اورپتھر پر چڑھ کر جیسے ہی خوراک کے قریب ہواتو ایک انسانی ہاتھ نے اس کو پکڑکرتھیلے میں ڈال دیا۔

وہ چلایا، پھڑپھڑایا لیکن تھیلے سے باہر نہیں نکل سکا۔آدمی نے گھر آکرایک برتن میں پانی بھرا ، اس کو چولہے پر رکھا اور مینڈک کو اس میں ڈال دیا۔مینڈک نے صاف پانی دیکھا تو وہ اس کو اچھا لگنے لگا۔وہ اس میں تیرنے لگا اوراس کو انجوائے کرنے لگا۔کچھ ہی دیر میں اس کو محسوس ہوا کہ پانی کا نچلا حصہ آہستہ آہستہ گرم ہورہا ہے ، اس نے پروا نہ کی۔

          کچھ دیر بعد سارا پانی گرم ہوگیا اوررفتہ رفتہ وہ شدت اختیار کرتا گیا لیکن اس نے اپنی قدرتی صلاحیت سے اپنے جسم کو ٹھنڈاکرناشروع کیا ،پانی گرم ہوتا گیا اور وہ اپنی جسمانی ٹھنڈک بڑھاتاگیا۔دو منٹ کے بعد پانی ابلنا شروع ہوگیا۔ مینڈک نے اپنے جسم کو اس کے مطابق ٹھنڈاکرنے کی کوشش کی لیکن اس کے اعصاب جواب دے گئے۔اب اس نے اچھل کود شروع کردی اور پوری کوشش کرنے لگا کہ کسی طرح اس برتن سے باہرنکلے لیکن اس کی تمام جدوجہد بےکارثابت ہوئی۔

       تھوڑی ہی دیر میں وہ ہانپنے لگا۔اس کے جسم میں توانائی ختم ہوچکی تھی اور کچھ ہی لمحوں میں کھولتے ہوئے پانی کی تاب نہ لاکر وہ مر گیا۔

 

    اضافی کمینٹری

                                         

         ہماری سوچ ہوتی ہے کہ بس زندگی گزررہی ہے نا، تو گزرنے دو۔وقت آنے پر دیکھا جائے گا۔اس سوچ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ جب پانی ہمارے سر سے اوپر چلاجائے اور ہماری سانس بند ہونے لگے تو پھر ہمارے اندرتوانائی ہی نہیں بچی ہوتی۔ ہم صرف ہاتھ پیرہی مارسکتے ہیں ، پانی سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔


          قابلیت سے محروم ایسا انسان اپنی زندگی میں چیلنج نہیں لے سکتا۔معمولی حالات خراب ہونے پر بھی اس کے ہاتھ پاٶں پھول جاتے ہیں۔اس کے اندر زندگی کے حقائق تسلیم کرنے اور ان سے لڑنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔اس کی زندگی میں تبدیلی نہیں آتی۔ایسا شخص اپنی زندگی بدلنا چاہ رہا ہوتاہے، وہ چاہتاہے کہ میں ایک نامور انسان بن جاٶں، لیکن یہ صرف خواہش ہوتی ہے اس کو عملی شکل دینے کے لیے وہ کچھ کرتانہیں ہے۔وہ رسک لینے کو تیار نہیں ہوتا۔وہ راستہ بدلنے ،ہجرت کرنے ، پسندیدہ نوکری چھوڑنے اور تبدیلی کی قیمت چکانے کوتیار نہیں ہوتا۔اس کی زندگی میں نئے لوگ نہیں آتے کیونکہ رشتے بنانے اور نبھانے کے لیے تین چیزیں درکارہوتی ہیں۔

توجہ ،ٹائم اور پیسہ۔

        ہر رشتے کو توجہ دینی ہوتی ہے، اس کے لیے وقت نکالنا ہوتاہے۔شادی بیاہ اورغمی خوشی میں شرکت کرنی ہوتی ہے اور بوقت ضرورت پیسے بھی خرچ کرنے ہوتے ہیں لیکن ’’کمفرٹ زون‘‘ کا قیدی شخص یہ سب نہیں کرسکتا ،کیونکہ وہ آرام دہ زندگی گزارنے کا عادی ہوچکا ہوتاہے۔

                             تحریر :  قاسم علی شاہ


            


Sunday, March 2, 2025

.*آسمان سے بھینس گری اور جہاز تباہ*




 





١٩٥٦میں ہونے والا ایک حیرت انگیز واقعہ

                 ١٩۵٦ء میں امریکا میں ایک بحری جہاز تیل لے کر جا رہا تھا۔ یہ جہاز اچانک اپنے روٹ سے ہٹ گیا۔ اور پھر اچانک بلند ہوتی لہروں یا کسی اور وجہ سے یہ جہاز اپنا توازن برقرار نہ رکھ پایا اور پانی میں موجود ایک چٹان سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ حادثے کے موقع پر جہاز کے کپتان نے لائف بوٹ کی مدد سے اپنی جان بچائی۔ لیکن حادثے کے بعد جہاز کے کپتان کو گرفتار کر لیا گیا کیونکہ تیل کے نقصان کے ساتھ ساتھ جہاز بھی تباہ ہو گیا تھا اور اس کا ذمہ دار جہاز کا کپتان تھا۔ گرفتاری کے بعد اس سے حادثے کی وجہ پوچھی گئی تو کپتان نے بتایا وہ جہاز کے ڈیک پر موجود تھا، آسمان بالکل صاف تھا۔ اچانک آسمان سے آبشار کی طرح ڈیک پر پانی گرا اور پانی کے ساتھ ہی آسمان سے ایک موٹی تازی بھینس نیچے گری۔ بھینس کے گرنے سے جہاز کا توازن بگڑ گیا اور یہ چٹان سے ٹکرا گیا۔ جس کی وجہ سے جہاز تباہ ہو کر ڈوب گیا۔
 
یہ ایک عجیب قسم کی سٹوری یا جواز تھا اور کوئی بھی نارمل شخص اس سٹوری پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ شائد آپ بھی اس پر یقین نہیں کریں گے کیونکہ اگر آسمان بالکل صاف ہو، آسمان سے اچانک آبشار کی طرح پانی گرے اور ذرا دیر بعد ایک دھماکے کے ساتھ آسمان سے ایک بھینس نیچے گر جائے تو اس پر کون یقین کرے گا۔ کپتان کی بات پر بھی کسی نے یقین نہیں کیا تھا۔ آئل کمپنی نے اس کو جھوٹا قرار دے دیا۔ پولیس نے اسے مجرم ڈکلیئر کر دیا اور آخر میں نفسیات دانوں نے بھی اسے پاگل اور جھوٹا قرار دے دیا۔ اور کپتان کو پاگل خانے میں داخل کروا دیا گیا۔ یہ وہاں پچیس سال تک قید رہا اور اس قید کے دوران اور پاگلوں کے درمیان رہنے کی وجہ سے یہ حقیقتاً پاگل ہو گیا۔
 
یہ اس کہانی کے سکے کا ایک رخ تھا۔ اگر میں بھی آپ سے پوچھوں کہ کیا یہ کپتان سچ بول رہا تھا تو آپ میں سے بھی اکثر دوست کہیں گے یہ ممکن ہی نہیں کہ آسمان صاف ہو اور آسمان سے کوئی بھینس گرے۔ اس پہلو کو پڑھنے والے اس کپتان کو پاگل یا جھوٹا ہی کہیں گے۔
 
 اب آپ اس کہانی کے سکے کا دوسرا رخ ملاحظہ کیجیئے اور اس رخ کو سننے کے بعد آخر میں آپ کو یہ کپتان دنیا کامظلوم ترین شخص دکھائی دے گا۔
 
اس واقعے کے پچیس سال بعد ایئر فورس کے ایک ریٹائرڈ افسر نے اپنی یادداشتوں پر مبنی ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب میں اس نے انکشاف کیا، 

               ١٩۵٦ء میں ایک پہاڑی جنگل میں آگ لگ گئی تھی اور اسے آگ بجھانے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ اس نے ایک ہوائی جہاز کے ساتھ پانی کا ایک بہت بڑا ٹینک باندھا۔ وہ اس ٹینک کو پانی میں ڈبو کر بھرتا۔ جنگل کے اوپر جاتا اور پانی آگ پر گرا دیتا اور ٹینک بھرنے کیلئے دوبارہ پانی کی طرف رخ کر لیتا۔ وہ ایک بار پانی کا ٹینک لے کر جا رہا تھا کہ اسے اچانک ٹینک کے اندر اچھل کود محسوس ہوئی۔ اسے محسوس ہوا ٹینک کے اندر کوئی زندہ چیز چلی گئی ہے اور اگر اس نے ٹینک نیچے نہ گرایا تو اس چیز کی اچھل کود سے اس کا ہوائی جہاز گر جائے گا۔ اس نے فوراً پانی والا ٹینک بٹن دبا کر کھول دیا۔ ٹینک سے پانی آبشار کی مانند نیچے گرا اور اس کے ساتھ ہی موٹی تازی بھینس بھی نیچے کی طرف گر گئی۔ یہ پانی اور بھینس نیچے ایک بحری جہاز کے ڈیک پر جا گری۔
 
 آپ اب کہانی کے اس پہلو کو پہلے اینگل سے جوڑ کر دیکھئے، آپ کو سارا منظر نامہ تبدیل ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔
 📝اضافی کمینٹری /کیوریشن

ایک بات یاد رکھیئے آپ جب تک دوسرے فریق کا موقف نہ سن لیں اور اس کی اچھی طرح جانچ نہ کر لیں اس وقت تک آپ کسی شخص کی کہانی کو جھوٹا کہنے سے بچیں۔ کیونکہ جب تک ملزم اور مدعی کا مؤقف سامنے نہیں آتا اس وقت تک صورتحال واضح نہیں ہوتی۔

                    اور اگر ہم اس کہانی کو سامنے رکھتے ہوۓ دیکھیں تو کبھی کبھار کسی کو اپنی بیگناٸی ثابت کرنے کے لٸے بہت زیادہ عرصہ لگ جاتاہے اسکی ایک مثال حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ ہے بہرحال سچ سامنے آ ہی جاتا ہے۔

آسمان سے گری بہری جہاز میں


الفاظ کا درست استعمال۔

Other Language reader use translator/lens