مینڈک بڑے مزے سے تالاب میں زندگی گزاررہا تھا لیکن ایک دن اس کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔اس کو بھوک لگی ہوئی تھی۔کافی دیر سے کھانے کے لیے کچھ نہیں مل رہا تھا۔خوراک کی تلاش میں وہ پانی سے نکل کر کنارے پرآیاتو وہاں ایک پتھر پر کھانے کی چیز پڑی ہوئی تھی ۔وہ بڑاخوش ہوا اورپتھر پر چڑھ کر جیسے ہی خوراک کے قریب ہواتو ایک انسانی ہاتھ نے اس کو پکڑکرتھیلے میں ڈال دیا۔
وہ چلایا، پھڑپھڑایا لیکن تھیلے سے باہر نہیں نکل سکا۔آدمی نے گھر آکرایک برتن میں پانی بھرا ، اس کو چولہے پر رکھا اور مینڈک کو اس میں ڈال دیا۔مینڈک نے صاف پانی دیکھا تو وہ اس کو اچھا لگنے لگا۔وہ اس میں تیرنے لگا اوراس کو انجوائے کرنے لگا۔کچھ ہی دیر میں اس کو محسوس ہوا کہ پانی کا نچلا حصہ آہستہ آہستہ گرم ہورہا ہے ، اس نے پروا نہ کی۔
کچھ دیر بعد سارا پانی گرم ہوگیا اوررفتہ رفتہ وہ شدت اختیار کرتا گیا لیکن اس نے اپنی قدرتی صلاحیت سے اپنے جسم کو ٹھنڈاکرناشروع کیا ،پانی گرم ہوتا گیا اور وہ اپنی جسمانی ٹھنڈک بڑھاتاگیا۔دو منٹ کے بعد پانی ابلنا شروع ہوگیا۔ مینڈک نے اپنے جسم کو اس کے مطابق ٹھنڈاکرنے کی کوشش کی لیکن اس کے اعصاب جواب دے گئے۔اب اس نے اچھل کود شروع کردی اور پوری کوشش کرنے لگا کہ کسی طرح اس برتن سے باہرنکلے لیکن اس کی تمام جدوجہد بےکارثابت ہوئی۔
تھوڑی ہی دیر میں وہ ہانپنے لگا۔اس کے جسم میں توانائی ختم ہوچکی تھی اور کچھ ہی لمحوں میں کھولتے ہوئے پانی کی تاب نہ لاکر وہ مر گیا۔
اضافی کمینٹری
ہماری سوچ ہوتی ہے کہ بس زندگی گزررہی ہے نا، تو گزرنے دو۔وقت آنے پر دیکھا جائے گا۔اس سوچ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ جب پانی ہمارے سر سے اوپر چلاجائے اور ہماری سانس بند ہونے لگے تو پھر ہمارے اندرتوانائی ہی نہیں بچی ہوتی۔ ہم صرف ہاتھ پیرہی مارسکتے ہیں ، پانی سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔
قابلیت سے محروم ایسا انسان اپنی زندگی میں چیلنج نہیں لے سکتا۔معمولی حالات خراب ہونے پر بھی اس کے ہاتھ پاٶں پھول جاتے ہیں۔اس کے اندر زندگی کے حقائق تسلیم کرنے اور ان سے لڑنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔اس کی زندگی میں تبدیلی نہیں آتی۔ایسا شخص اپنی زندگی بدلنا چاہ رہا ہوتاہے، وہ چاہتاہے کہ میں ایک نامور انسان بن جاٶں، لیکن یہ صرف خواہش ہوتی ہے اس کو عملی شکل دینے کے لیے وہ کچھ کرتانہیں ہے۔وہ رسک لینے کو تیار نہیں ہوتا۔وہ راستہ بدلنے ،ہجرت کرنے ، پسندیدہ نوکری چھوڑنے اور تبدیلی کی قیمت چکانے کوتیار نہیں ہوتا۔اس کی زندگی میں نئے لوگ نہیں آتے کیونکہ رشتے بنانے اور نبھانے کے لیے تین چیزیں درکارہوتی ہیں۔
توجہ ،ٹائم اور پیسہ۔
ہر رشتے کو توجہ دینی ہوتی ہے، اس کے لیے وقت نکالنا ہوتاہے۔شادی بیاہ اورغمی خوشی میں شرکت کرنی ہوتی ہے اور بوقت ضرورت پیسے بھی خرچ کرنے ہوتے ہیں لیکن ’’کمفرٹ زون‘‘ کا قیدی شخص یہ سب نہیں کرسکتا ،کیونکہ وہ آرام دہ زندگی گزارنے کا عادی ہوچکا ہوتاہے۔
تحریر : قاسم علی شاہ


