Tuesday, December 31, 2024

معجزہ رسول محمد صلى الله عليه واله وسلم

Use translater for translation



اضافی کمینٹری

            یہ معجزہ اس بات کی دلیل ہے کہ نبیوں و رسولوں کو کاٸنات میں تصرف کی اجازت ہے۔ اور نبی و رسول کو ان کے حالات کے مطابق معجزات عطا ہوۓ

مثال کے طور پر حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی قوم کی ڈیمانڈ Demand پر اونٹنی کا معجزہ عطا ہوا ، اسی طرح حضرت موسٰی علیہ السلام کو عصّا و ید بیضا کا اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کو کوڑیوں کو ٹھیک کرنے ،مادر زاد اندھوں کو بیناٸی دینا ، مُردوں کو زندہ کرنے ، اور بنی اسراٸیلی گھروں میں جو کچھ چھپا کر رکھتے انہیں بتا دیتے۔اسکے علاوہ اور انبیاء علیہ السلام کو بھی درجنوں معجزے عطا ہوٸے۔

              ہمارےنبی آخری زماں محمد صلى الله عليه واله وسلم کو بھی اللّٰہ پاک کی عطا سے سب  انبیاء کے معجزات سے زیادہ معجزات عطا ہوۓ۔ جو سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتے ہیں۔ جن میں چند کا زکر کرتا ہوں۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ جنگ میں ضاٸع ہوٸی تو وہ دوبارہ ٹھیک کردی

           سفر کے دوران پانی ختم تھا تو آپ صلى الله عليه واله وسلم نے انگلیوں سے چشمے جاری کیے۔ جو ١٤٠٠ صحابہ کو کافی ہو گیا۔

            ایک صحابی کی جنگ کے دوران پنڈلی ٹوٹی تو وہ جوڑ دی۔ 

           ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی جنگ میں تلوار ٹوٹی تو انہیں ایک لکڑی عطا کی جو دوران جنگ تلوار بن گٸی                  دو صحابی رضی اللہ عنہ کو گھر پہنچنے کے لۓ رات میں روشنی کی ضرورت پڑی تو انہیں لکڑی دی جو روشن ہو گٸی اور  صحابہ اسکی روشنی میں گھر پہنٍچ گٸے۔



              انبیاء و مرسل، صحابہ، اولیاء اللہ سب کو اللّٰہ پاک کی طرف سے مقام عطا ہوتا ہے۔ اگر کوٸی  عام بندہ یہ چاھے کہ مجھے فلاں مقام عبادت و ریاضت سے مل جاۓ تو ایسا ممکن نہیں۔ ربّ جسے چنے وہی اسکا اہل ہے۔

          جیسا کہ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ

 صحابی کا مٹھی بھر صدقہ عام امتی کے اُحد پہاڑ سے افضل ہے۔

            اورصحابہ میں سب ًشامل ہیں آل، اولاد، ازواج وغیرہ. جنوں نے ایمان کی حالت میں آخری نبی محمد صلى الله عليه واله وسلم  کی صحبت پاٸی۔


              



Saturday, December 21, 2024

معاشی آزادی کہاں تک!


 

Other language readers use  translator/len for reading


              ”اسکول میں ہمیں پیسوں کے بارے میں کیوں نہیں بتایاجاتا؟‘‘بچے کے اس عجیب سوال نے والد کو حیران کر دیا ۔والد بولا:’’کیوں کہ حکومت ایسا نہیں چاہتی۔‘‘ بچہ دوبارہ بولا:’’تو کیا میں اسکول میں پیسہ کمانے کے بارے میں کبھی نہیں جان سکوں گا؟‘‘والدکے لیے بچے کوسنبھالنامشکل ہورہا تھا۔وہ بولا:’’ہمیں نوکری کے لیے تیار کیاجاتا ہے اور اسی نوکری سے ہمیں پیسے مل جاتے ہیں۔‘‘بچہ زِچ ہوکرایک بار پھربولا:’’تو پھر میں نوکری کرنے کے بجائے سیدھا پیسے کے بارے میں کیوں نہ سیکھوں؟‘‘اس کا والد سوچوں میں ڈوب گیا،جیسے کہہ رہاہو ’’ہاں بات تو تمھاری ٹھیک ہے۔‘‘یہ بچہ رابرٹ کیوساکی  تھا ۔

 ۔ اُس کی یہ جستجو اس کو اپنے دوست کے والد کے پاس لے آئی۔وہ ایک انٹرپرینورEntrepreneurتھاجس کورابرٹ نے ’’رِچ ڈیڈrich dad‘‘ کا نام دیا۔رابرٹ اس کے دفتر میں کام کرنے لگاالبتہ وہ اس شرط کے ساتھ رہنمائی دینے پر آمادہ ہوا کہ وہ رابرٹ کو تنخواہ نہیں دے گا۔’’رِچ ڈیڈ‘‘ کاکہنا تھا کہ جب انسان کوتنخواء نہیں ملتی ہے تو اس کا ذہن پیسوں کے بارے میں سوچنا بند کردیتاہے ۔‘‘’’رِچ ڈیڈ‘‘کے خیالات نے رابرٹ کوعملی میدان میں بے تحاشا فائدہ دیا۔ اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں قدم رکھتے ہوئے وہ یو ایس نیوی میں بھرتی ہوا،پھر ایک اسٹینڈرڈ آئل کمپنی standard oil company میں ’’ٹینکرآفیسرtanker officer‘‘ کے طورپر کام کرنے لگا۔اس نے 1972ء کی امریکہ ویت نام جنگ میں بھی حصہ لیا اور پھر کچھ سالوں بعد اس نے ایک سیمینار میں شرکت کی، جس نے اس کی زندگی بدل ڈالی۔رابرٹ نے اپنی کمپنی شروع کی جو دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہوگئی، لیکن حیرت انگیز طورپر کچھ ہی عرصے میں اس کا ساراسرمایا ڈوب گیا۔وہ کنگال ہوگیا۔اس کے بعد اس نے ٹی شرٹ اور بیگز کا بزنس شروع کیا لیکن یہ کمپنی بھی کچھ کامیاب ثابت نہیں ہوئی۔چوں کہ وہ ان عوامل کو اچھی طرح جان چکا تھا جو بزنس میں نقصان دہ ہوتے ہیں اس لیے وہ لوگوں کو کاروبار میں نقصان سے بچنے کی تدابیر بتانے لگا۔اس کی تجاویز کارگرثابت ہوئیں ،اورکئی سارے لوگوں کا کاروبارترقی کرنے لگ گیا۔1992ء میں اس پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ ایک اچھا لکھاری بھی ہے۔چنانچہ اس نے تصنیف کے میدان میں قدم رکھا اور’’Rich Dad Poor Dad‘‘ اور’’ Why A Students Work for "C" Students‘‘جیسی کتابیں لکھیں جنھوں نے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کردیے۔انہی کی بدولت آج رابرٹ کیوساکی کوکاروباری دنیا میں ایک گرو کی حیثیت حاصل ہے اور لاکھوں لوگ اس کے خیالات سے مستفید ہورہے ہیں۔رابرٹ کہتاہے:’’ایک غریب انسان بچپن سے غریب نہیں ہوتا، اس کارویہ غریب ہوتاہے۔ غریبی انسان کے الفاظ میں ہوتی ہے۔وہ کہتاہے میرے پاس پیسے نہیں ، مہنگی چیز خرید نہیں سکتااور یہ الفاظ اس کی زندگی کو مزید غریب بنادیتے ہیں کیوں کہ ہم وہی بنتے ہیں جو بولتے ہیں۔یہ ایک طرح سے اپنی غریبی سے فرار ہوتاہے اور یہی وہ جال ہے جس میں دنیا کے اکثر لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘


📝Curation/Additional commentry

📝کیوریشن/اضافی کمینٹری


معاشی فراوانی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا کہ انسان اپنی زندگی میں چاہے کچھ بھی کرے ، وہ دراصل ’’معاشی آزادی‘‘ کے لیے کررہا ہوتاہے۔نعمتوں کی فراوانی اور سہولیات سے مزین زندگی ہر شخص چاہ رہا ہوتاہے۔آزادی ، انسان کی فطرت ہے ۔وہ کسی کا غلام بن کر نہیں رہ سکتا۔وہ اپنے لیے ایک آزاد زندگی چاہتاہے ۔ایک ایسی زندگی جس کا مالک وہ خود ہو۔جس میں وہ کسی دوسرے کی مرضی پر نہ چلے بلکہ اپنے اصول وقواعدکے مطابق زندگی گزارے ۔وہ زندگی جس میں انتخاب کا اختیار اس کے اپنے ہاتھ میں ہو ، وہ زندگی جس میں فیصلے کا حق اس کے پاس ہو۔




               معاشی آزادی کی یہ کوشش انسان کی بچپن سے شروع ہوتی ہے۔خود میرے اور آپ کے بچپن میں کئی سارے ایسے واقعات ہیں جن میں ہم کہتے ہیں کہ جب میں بڑا ہوجاٶں گا،تو میں فلاں فلاں چیزخریدوں گا۔دراصل یہ اسی معاشی آزادی کی طرف اشارہ ہوتاہے۔تعلیم کا سفر شروع ہوتاہے تو وہاں بھی بار بار بچوں کے ذہن میں یہ بات ڈالی جاتی ہے کہ اچھے نمبر لو ، تاکہ تمھیں اچھی نوکری ملے اور تم کامیاب انسان بن جاٶ۔ 


                  اسکول سے کالج اور پھر یونیورسٹی تک اس سارے سفر میں دو ہی چیزیں ذہن میں ہوتی ہیں:’’ اچھے نمبرلینا اور اچھی نوکری حاصل کرنا۔عملی زندگی میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی ایک بار پھر یہ سوچ دماغ میں بسیرا کر لیتی ہے کہ میں نے اتنے پیسے کمانے ہیں کہ جس کے بعد میں معاشی طورپر آزاد انسان بن جاٶں ۔میں اپنے لیے ایک اچھا گھر بناسکوں ، میرے پاس قیمتی گاڑی ہواور میں ایک ایسی پوزیشن پر پہنچ جاٶں جہاں مجھے مالی طورپر پریشان نہ ہونا پڑے ،میں کہیں بھی جاسکوں ، کسی بھی ریسٹورنٹ restaurant میں کھانا کھاسکوں اوردنیا کی ہرنایاب uniqueنعمت چکھ سکوں ۔




    اس مقام تک پہنچنے کے لیے سخت محنت اور بڑی سے بڑی قربانی دیتاہے۔نوکری کے دوران مشکل حالات ، اصول وضوابط کی پابندی ، ٹائم کی قید ،باس Bossکا سخت رویہ اور موسم کی سختیاں وہ اسی لیے برداشت کرتاہے کہ ایک دن آئے گاجب میں معاشی آزادی حاصل کرلوں گا۔اپنے کاروبار میں دن رات کی محنت ، لمبی فکریں، پریشانیاں ، خطرات اور اپنی نیند تک قربان کرنابھی اسی لیے ہوتاہے کہ میں ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچ جاٶں جہاں مجھے مکمل معاشی آزادی حاصل ہو اور میں زندگی کو بھرپور انداز میں جی سکوں ۔




خوشحالی کامطلب دراصل یہ ہے کہ انسان کی زندگی پٹرول کے ریٹ پر نہ چل رہی ہو، ریٹ بڑھ جائے یا کم ہوجائے، اس سے اُس کی زندگی پر فرق نہ پڑے۔ اس کے مقابلے میں جس شخص کی زندگی معمولی مہنگائی سے بھی متاثر ہوتی ہو اور اس کو ہر وقت یہ فکرکھائے جارہی ہو کہ بائیک میں پٹرول ڈلوانا ہے ، بجلی کابل دینا ہے ، بچوں کی فیس دینی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خوشحال انسان نہیں ہے۔

               ایساشخص حالات و واقعات کی قیدمیں پھنساہے اور اس کی زندگی کے فیصلے بھی انھی حالات پر منحصر ہوتے ہیں۔ایسافرد کسی مشہور ریسٹورنٹ کے باہر کھڑے ہوکر اپنے بیٹے سے کہتاہے کہ یہاں کا پیزا بہت مشہور ہے ۔بیٹاکھانے کی فرمائش کرتاہے تو وہ کہتاہے ،ابھی نہیں ، پھر کبھی کھائیں گے۔ کیوں کہ اس کی جیب اس کو اجازت نہیں دے رہی ہوتی۔وہ ہر چیزکی خریداری یہ سوچ کر مٶخرکرتاہے کہ ’’پہلی آنے والی ہے‘‘اس کے بعد لے لیں گے۔یہ غریب انسان کا مشہور ڈائیلاگ ہے اور اسی وجہ سے وہ مہینے کےدرمیان ایسی تمام چیزیں نہیں خریدسکتا جس کو وہ خود بھی چاہ رہاہوتاہے اور اس کے بچے بھی۔




     ’’معاشی آزادی‘‘ انسان کے جینز geans میں فٹ ہے اور اسی وجہ سے یہ بار بارانسان کو اُکساتی ہے کہ خود کو مجبور حالات کے دائرے سے نکالو اورآزاد ہوجاٶ۔وہ برسوں حالات کی ان زنجیروں کو توڑنے میں لگادیتاہے۔اگر اس کا عزم صادق اور محنت کرنے کی سمت درست ہو تو ایک وقت کے بعد وہ معاشی طورپر خوشحال انسان بن جاتاہے ۔ 


   اب یہاں اس کو اپنی آزادی کوانجوائے کرلیناچاہیے لیکن اکثر اوقات ایسا ہوتاہے کہ وہ اس مقام سے ایک قدم آگ جاناچاہتاہے ۔وہاں پہنچ کر ایک سیڑھی اوراوپر جانے کاخواہش مند ہوتاہے اورپھ اس کو احساس ہی نہیں ہوتاکہ آزادی پالینے کے بعدوہ ایک بار پھر غلام بن چکا ہے۔یہ سب حاصل کرنے کامقصد یہ تھا کہ وہ اپنی مرضی کی زندگی جی سکے، لیکن مادی چیزوں کی ہوس اور زیادہ پیسا جمع کرنے کی لالچ نے اس کو اپنا غلام بنالیاہوتاہے،اب وہ بظاہر تو بڑامالدار انسان ہے لیکن حقیقت میں دیکھیں تو اس میں اور حالات کے ستم سے مجبور ایک غریب انسان میں کوئی فرق نہیں رہتا۔دونوں غلام ہیں۔




        ایک انسان زمانے ک مالدار ترین انسان بن جائے ،اس کے پاس دنیا جہاں کی نعمتیں ہوں لیکن اگر اس سے اس کادوست کہے کہ چھٹیاں آرہی ہیں ، چلو یورپ چلتے ہیں اور وہ کہے کہ میں نہیں جاسکتا تو یہ مالدار ترین انسان ہوکر بھی آزاد نہیں ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جواپنی حاصل کردہ نعمتوں سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔ان کی تجوریاں بھری ہوتی ہیں لیکن دسترخوان پر ایک ہی ابلی ہوئی ڈش ہوتی ہے۔یہ لوگ گلی میں کھڑے ہوکر بھنا ہوا’’بھٹا‘‘نہیں کھاسکتے ،یہ آلو بخارے کا شربت نہیں پی سکتے ۔ یہ کسی ڈھابے پر بیٹھ کردوستوں کے ساتھ گھنٹوں گپ شپ نہیں کرسکتے ، یہ وہاں چائے نہیں پی سکتے ۔یہ سب دراصل سونے کے پنجرے کے قیدی ہوتے ہیں،یہ ان سلاخوں پرفخر تو کرتے ہیں جو سونے چاندی سے جڑے ہوئے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ ان سلاخوں نے ان سے ان کی آزادی چھین لی ہوتی ہے۔

بھکاری عورت اور نوجوان


 ایک بوڑھی عورت مسجد کے سامنے بھیک   

 مانگا کرتی تھی۔ایک شخص روز اسے بھیگ مانگتے دیکھتا

کیوریشن/اضافی کمینٹری

 ایک دن اُس شخص نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ کا کوئی بیٹا کمانے کے قابل نہیں ہے؟

تو اس بوڑھی عورت نے جواب دیا  کہ” ھےتو“

نوجوان بولا ”تو پھر آپ یہاں کیوں بھیک مانگ رہی ہیں؟“

 بوڑھی عورت نے کہا کہ ”میرے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے۔

 میرا بیٹا نوکری کے لئے بیرون ملک گیا تھا۔  جاتے ہوئے اخراجات کے لئے مجھے کچھ رقم دے کر گیا تھا ، 

وہ خرچ ہوچکی ہے اب میں کیا کھاٶں،

 اسی وجہ سے میں بھیک مانگ رہی ہوں۔ 

 اس شخص نے پوچھا - ”کیا آپ کا بیٹا آپ کو کچھ نہیں بھیجتا ہے؟“

 بوڑھی عورت نے کہا ”میرا بیٹا ہر ماہ رنگ برنگے کاغذ بھیجتا ہے جسے میں گھر میں دیوار پر چپکا کر رکھتی ہوں۔“ 

 وہ شخص بولا  مجھے اپنے گھر لے چلیں میں رنگ برنگ کے کاغز دیکھنا چاہتا ہوں“ اور دیکھا کہ دیوار پر بینک کے 60 ڈرافٹ چسپاں کردیئے گئے ہیں۔  

ہر ڈرافٹ  50،000 روپے کا تھا۔  

تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے ، وہ عورت نہیں جانتی تھی کہ اس کے پاس کتنی دولت ہے۔ 

 اس شخص نے اسے ڈرافٹ کی اہمیت سمجھا دی تو وہ عورت بہت خوش بھی ہوئی اور حیران بھی ہوئی اور پریشان بھی ہوئی کہ دولت ہوتے ہوئے بھی وہ بھیک مانگتی رہی ہے.

 

کیا ہماری حالت بھی اس بوڑھی عورت کی طرح ہے 

 ہمارے پاس قرآن ہے  اور ہم اسے اپنے منہ سے چومتے اور ماتھے پر لگا کر اپنے گھر سجھاتے ہیں بس ۔ پر اس سے پڑھ کر ہدایت نہیں لیتے ۔

حدیث نبوی محمد صلى الله عليه واله وسلم ہے ” تم میں بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھاٸے“

رزق


 رزق کو حاصل کرنے کا زریعہ

اضافی کمینٹری/
اس واقعے سے یہ سبق ملا کہ رزق کمانے کے دو راستے ہیں یہ اب بندہ پر ہے کہ وہ صحیح کو اختیار کرتا ہے یا غلط کو ۔ اگر بندہ تھوڑا صبر کر لے اور صحیح کا اختیار کرے تو اس کو دنیا و آخرت میں شرمندگی نہ ہو۔ 


Wednesday, December 11, 2024

کاش




  









            ایک خاتون بیان کرتیں ہیں ایک دن میں اپنے گھر کی صفاٸی میں مصروف تھی کہ، اتنے میں میرا بیٹا   آیا اورشو کیس والے  شیشے سے ایک شاہکار (تحفہ )گرا دیا اور وہ ٹوٹ گیا۔

میں اس سے بہت ناراض تھی کیونکہ یہ بہت مہنگا تھا اور میری ماں نے مجھے دیا تھا اور میں اسے پسند کرتی تھی اور اسے رکھنا چاہتی تھی۔ میں نے غصے سے اسے بلایا اور کہا۔

”میرا رب ایسی دیوارگرائے جو تمہاری ہڈیاں توڑ دے“

وہ خاتون کہتی ہیں:

سال گزر گئے اور میں اس بدعا کو بھول گئی۔ اور مجھے اس کی پرواہ نہیں تھی، اور نہ ہی مجھے معلوم تھا کہ وہ آسمان پر چڑھ گئی ہے!
میرا بیٹا اپنے بھائیوں و بہنوں کے ساتھ پلا بڑھا اور وہ میرے دل میں میرے بیٹوں میں سب سے زیادہ پیارا تھا
میں اس کوہوا لگنے سے بھی ڈرتی تھی وہ میرے لیے اپنے بھائیوں و بہنوں سے زیادہ نیک تھا۔
اس نے تعلیم حاصل کی، گریجویشن کیا، ملازمت حاصل کی، اور میں اس کے لیے بیوی تلاش کر رہی تھی۔
اس کے والد کی ایک پرانی عمارت تھی، اور وہ اسے گرا کر دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے تھے۔
میرا بیٹا اپنے والد کے ساتھ عمارت کی طرف گیا اور مزدور منہدم کرنے کی تیاری کر رہے تھے، اور اپنے کام کے درمیان میرا بیٹا اپنے والد سے دور چلا گیا اور کارکن نے اسے نوٹس نہیں کیا تو دیوار اس پر گر گئی!!
کاش میں گونگی ہوجاتی اور اس کو بد دعا نہ دیتی“۔

میرا بیٹا چیخا اور پھر اس کی آواز غائب ہوگئی۔  کارکن رک گئے اور سب پریشان اور خوف زدہ ہو گئے!!

انہوں نے بڑی مشکل سے اس سے دیوار ہٹائی، اور ایمبولینس آئی، اوراس کا جسم لے جانے کے قابل نہ رہاتھاکیونکہ شیشے کی طرح گر کر ٹوٹ گیاتھا، تو انہوں نے اسے بڑی مشکل سے اٹھایا اور انتہائی نگہداشت میں منتقل کیا!!

اور جب اس کے والد نے مجھے خبردی تو میں بے ہوش ہو گئی اور جب مجھے ہوش آیا تو گویا اللہ تعالیٰ نے میری آنکھوں کے سامنے وہ گھڑی بحال کر دی ہو جس میں نے بچپن میں کئی سال پہلے اس کے لیے بددعا کی تھی اور مجھے وہ بددعا یاد آ گئی۔ ، اور میں روتی رہی اور روتی رہی یہاں تک کہ میں دوبارہ ہوش کھو بیٹھی، جب ہسپتال میں مجھے ہوش ہوا، تو میں نے اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لیے کہا؟

میں نے اسے دیکھا، اور کاش میں نے اسے اس حالت میں نہ دیکھا ہوتا!

ان لمحوں میں دل کی دھڑکن رک گئی اور میرے بیٹے نے آخری سانس لی۔

میں نے روتے ہوئے کہا:

”کاش وہ دوبارہ زندہ ہو جائے، گھر کے تمام فن پاروں کو توڑ دے، بس میں اسے نہ کھووں۔

کاش کاش کاش، لیکن کاش لفظ کا وقت پورا ہو چکا تھا!

اضافی کمینٹری / کیوریشن

اپنے بچوں کوغصے میں بددعا کرنے میں جلدی نہ کریں۔شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگیں
اپنے دل سے وعدہ کریں کہ وہ اپنے بچوں کے لیے کامیابی اور رہنمائی کے لیے دعا کریں، ان کو بددعا نہ دیں۔
اور جان لیں کہ اپنے بچوں کے لیے بددعا کرنے سے ان میں فساد، ضد اور نافرمانی ہی بڑھ جاتی ہے۔
اس نافرمانی کی شکایت کرنے والے سب سے پہلے آپ ہیں جنہوں نے ان کے لیے بددعا کرنے میں جلدی کی۔
ایک شخص عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کے پاس اپنے بیٹے کی نافرمانی کی شکایت کرنے آیا!!
ابن مبارک نے اس سے پوچھا:” کیا تم نے اس کے لیے بددعا کی؟“
اس نے کہا: ”ہاں“
فرمایا : ”جاؤ، تم نےہی اسے خراب کر دیا ہے“۔

اور جب بھی آپ اپنے بچوں کو خوش ہوتے اور کھیلتے ہوئے پائیں تو ان کے لیے یہ دعا مانگیں:

”اے اللہ، میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ انہیں جنت میں خوش رکھ، جیسا کہ تونے انہیں دنیا میں  خوش رکھاہے“۔

Saturday, December 7, 2024

✨حالت حاضرہ پر نصیحت آمیز تحریر


نسیبو کے ماں باپ نے بڑے لاڈ پیار سے اسکی پرورش کی ۔ ہر ضد پوری کی پھر جب وہ جوان ہوئی تو والدین کی رضا مندی کی پرواہ کیے   بغیر کالج کی بس کے ڈرائیور سے خفیہ نکاح کر لیا، باپ کو جب پتہ چلا تو بیٹی نے جواب دیا۔


"میرا نکاح ہو چکا ھے، بہتر یہی ھے کہ آپ اپنے ہاتھوں مجھے رخصت کر دیں ورنہ میں خود ان کے پاس چلی جاؤں گی!

       باپ نے کہا کہ اگر آپ کا یہ حتمی فیصلہ ھے تو آپ نے گھر سے جو کچھ لینا ھے لے لو اور خود ہی اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤ، لیکن یہ یاد رکھنا، اب آپ کا ہم سے اور ہمارا آپ سے کوئی تعلق نہیں رہا۔آپ ہمارے لئے مر گئی اور ہم تمھارے لہے ۔

   وہ خوشی خوشی سامان پیک کر کے اپنے شوہر کے پاس چلی گئی۔ تقریبا آٹھ سال بعد اسکی ملاقات ایک قریبی عزیز سے ہوئی اور وہ اسے اپنے گھر لے آیا۔

خیر خیریت دریافت کرنے کے دوران اس نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ وہ سمجھا کہ شاید گھر کے حالات صحیح نہیں ہوں گے۔ والدین کی نافرمانی اور جدائی کا پچھتاوا اسے رُلائے جا رہا ہوگا۔ تمام گھر والے اسے دلاسے دینے لگے اور رونے کیوجہ دریافت کرنے لگے۔ بہت اصرار کے بعد اس نے رونے کی وجہ بتائی۔ وہ کچھ یوں گویا ہوئی۔

میں نے والدین کی نافرمانی کی، ان سے تمام تعلقات ختم ہوگئے۔ اسکا پچھتاوا تو مجھے ساری زندگی رھے گا۔ مالی لحاظ سے بھی مجھے کوئی پریشانی نہیں ھے۔ اللہ کا دیا سب کچھ ھے۔

لیکن میرے لئے جو سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہے وہ کچھ اور ہے میری صرف ایک ہی بیٹی ہے میرے شوہر جب نماز پڑھنے کے بعد دعا مانگتے ہیں تو میں نے چپکے سے کئی بار انکی دعا سُنی ہے وہ روتے ہوئے اور گِڑگڑاتے ہوئے اللہ پاک سے صرف ایک ہی دعا مانگ رہے ہوتے ہیں۔

یا اللہ !! میری بیٹی اپنی ماں پہ نہ جائے،

یا اللہ !! میری بیٹی اپنی ماں پہ نہ جائے،

یا اللہ !! یہ اپنی ماں کیطرح گھر سے بھاگ کے کبھی شادی نہ کرے۔ یہ اپنی ماں کیطرح اپنے والدین کی عزت کو کبھی رسوا نہ کرے۔۔۔۔

اضافی کمینٹری

               اگر اپنے اولاد کو دنیوی تعلیم کے ساتھ دینی نہ دلواٸی جاٸے تو وہ شاٸد ایسی حماقت کر گزریں۔ اپنی اولاد سے counseling یعنی بات چیت ، حال احوال پوچھتے رہیں اور جہان تک والدین کے لٸے ممکن ہو انہیں حلال رزق ہی کھلاٸیں۔ باقی جو مرضی رب کی اس پر راضی رہیں۔

Thursday, December 5, 2024

خوف،اور سکون





دو دوستوں کو دریا کی سیرکا شوق تھا، چنانچہ ایک دِن انھوں نے پروگرام بنایا ، وہ دریا کے کنارے جاپہنچے اور ایک ملاح سے کرایہ طے کرکے کشتی میں بیٹھ گئے۔کشتی چل پڑی اور وہ آپس میں گپ شپ کرتے ہوئے دریا کی روانی اور آسمان میں اُڑتے پرندوں سے لطف اندو زہونے لگے ۔ 

                ایک دوست باتونی قسم کا تھا، اس نے ایک نظر اپنے کام میں مصروف ملاح پر ڈالی اور اس کی طرف متوجہ ہوکر پوچھا۔’’چاچاجی آپ یہ کام کب سے کررہے ہیں؟‘‘ ملاح بولا:’’ہم خاندانی ملاح ہیں۔میرا دادا بھی ملاح تھابلکہ اُس کا توانتقال بھی اِسی دریا کے پانی میں ہوا تھا۔‘‘’’اچھا!وہ کیسے؟‘‘ مسافر نے افسوس اور تجسس سے ملے جلے لہجے میں کہا۔’’ایک دِن کشتی کی پتوار ٹھیک کرتے ہوئے اس کا پاؤں پھسلا اوروہ پانی میں جاگرا۔ بدقسمتی سے اُس دِن طغیانی بھی آئی ہوئی تھی ، اس نے کافی دیر تک ہاتھ پاؤں مارے لیکن بچانے والا کوئی نہیں تھا ، چنانچہ دو دِن بعد اس کی لاش ملی۔‘‘ ’’اوہ! یہ تو بڑے افسوس کی بات ہے۔‘‘ مسافر پریشان ہوا لیکن اپنی باتونی طبیعت سے مجبور ہوکر ایک اور سوال پوچھ بیٹھا۔’’اور آپ کا والد؟‘‘ ’’وہ بھی ملاح تھا اور اسی دریا میں ڈوب کر فوت ہوا۔‘‘ملاح کا جواب سن کر مسافر اور بھی رنجیدہ ہوا اور پھر بولا:’’جب یہ اس قدر خطرناک پیشہ ہے تو پھر اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے"؟


ملاح نےدور آسمان کی طرف دیکھا ، ایک لمباسانس لیا اور پھر مسافر سے مخاطب ہوکر بولا:’’اچھا مشورہ ہے مگر ایک سوال میرا بھی ہے۔‘‘ جی جی پوچھیں چاچاجی“ مسافر نے باچھیں پھیلاتے ہوئے کہا۔’’یہ بتاٶ کہ تمھارے دادا کہاں فوت ہوئے تھے؟‘‘ ملاح نے پہلا سوال داغا۔مسافر نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولا:’’وہ چارپائی پر فوت ہوئے تھے۔ا ن کی عمر کافی ہوچکی تھی ، آخری دِنوں میں بیماری شدت اختیار کرگئی تھی ، کافی علاج کروایا لیکن افاقہ نہ ہوا اور بالآخر وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔‘‘ ’’ھممم‘‘ ملاح نے سرہلایا اوردوسرا سوال پوچھا۔’’اور تمھارے والد؟‘‘ مسافر کچھ ڈگمگایا، کیونکہ وہ سمجھ چکا تھا کہ ملاح اس کو گھیررہا ہے مگر جواب تو دینا ہی تھا ،سو وہ بولا:’’وہ بھی اپنے باپ کی طرح چارپائی پر فوت ہوئے تھے ۔‘‘ ملاح نے غصے سے کہا:’’جب چارپائی اس قدر خطرناک چیز ہے تو پھر اس کواُٹھاکر پھینک کیوں نہیں دیتے!!‘‘


📝اضافی کمینٹری

یہ کہانی ہے تو کافی پرانی لیکن یہ ایک بہترین نکتے کو بیان کرتی ہے کہ اِس دنیا میں اگر صحیح طریقے سے زندگی گزارنی ہے تو اپنے ڈر اور خوف کو کنٹرول control کرنا ہوگا۔ 

             ایک فطری چیز کو اس سوچ کے ساتھ  زبردستی جوڑ دینا کہ اس کی وجہ سے تو فلاں کی جان چلی گئی تھی عقل مندی کی علامت نہیں، کیونکہ اگرسارے انسان اسی سوچ کے مطابق زندگی گزارنے لگ جاٸیں تو پھر دنیاکا نظام ہی نہیں چلے گا۔


انسان جن جذبات و احساسات کے ساتھ پیدا ہوتا ہے ان میں ایک خوف بھی ہے،لیکن ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ انسان فطری طورپر صرف دوچیزوں سے ڈرتا ہے ان میں سے ایک

تیزآواز اور دوسری اونچائی سے نیچے دیکھ کرخوفزدہ ہونا ہے ، اس کے علاوہ باقی خوف والدین ، ماحول اور لوگوں کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔

             خوف اس قدر خطرناک چیز ہے کہ یہ انسان کی ساری شخصیت کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے ۔یہ سب سے پہلے انسان کے اعتماد کو ختم کرتا ہے مثلاََ اگر آپ نے گاڑی چلانا سیکھنی ہے اور آپ نے دو تین ایکسڈنٹ accident بھی دیکھے ہیں تو آپ کو بھی یہ خوف ہو گا کہ میرے ساتھ بھی یہی ہو گا اور پھراچھا بھلا ، مضبوط انسان بھی اعتماد سے محروم ہوجاتا ہے۔دوسرا انسان کی عزت نفس کو بھی ختم کردیتا ہے یہ اس کے اندر پلتے حوصلوں اور عزائم کو ماند(کمزور) کردیتا ہے اور انسان نے اپنی زندگی کو شان دار بنانے کے لیے جو بڑے بڑے خواب دیکھے ہوتے ہیں ، ان کوپانے میں ایک بڑی رُکاوٹ بن جاتا ہے۔


          انسان کے اندر موجود چند خوف تو وہ ہوتے ہیں جو والدین اپنی لاعلمی کی بناء پر بچپن میں اس کے زہن میں ڈال دیتے ہیں۔جیسے کسی جاندار، درندے ، مخصوص نام یا پھر کوئی فرضی کردار.


      بچپن کے اس خوف پر بروقت قابو نہ پالیاجائے تو پھر بڑی عمر کا ہوکر بھی انسان اعتماد اور دلیری سے محروم رہتا ہے۔انسان کی اسی کمزوری کا فائدہ پھر دوسرے لوگ بھی اٹھاسکتے ہیں۔

              

                   آپ کو مارکیٹ میں کسی ’’دوغلے  Hypocratic‘‘ بندے سے کوئی کام پڑجائے یا پھر کسی نیم حکیم قسم کے ڈاکٹر سے کوئی واسطہ پڑ جاۓ تو وہ آپ کو ایسے ایسے اندیشوں میں ڈال دیں گے کہ پھر آپ کو اپنا مستقبل دھندلانظر آنے لگ جائے گا اور یہی ہیرا پھیری کرکے وہ آپ سے پیسے بٹورنے کے چکر میں لگے ہوتے ہیں۔

            اسی  انسانی کمزوری کی وجہ سے پوری ایک انڈسٹری چل رہی ہے ۔میڈیا اور سوشل میڈیا کے اشتہاروں میں بالوں کی خشکی سے لے کر لائف انشورنس Life Insurance تک ، ہر جگہ غیر محسوس انداز میں دیکھنے والے کے ذہن میں ’’عدم تحفظ unsecure ‘‘کا احساس پیدا کیا جاتا ہے اور اس کو اپنی پراڈکٹproduct خریدنے کی ترغیب دے کر اس ’’خوف‘‘ سے بچنے کامشورہ دیا جاتاہے۔


’’درد Pain‘‘ انسان کو اتنا نہیں تڑپاتا جتنا اس درد کا خوف انسان کو بزدل بنادیتا ہے۔آپ نے کبھی انجکشن لگوانے کاتجربہ کیا ہوگا ۔سوئی جسم میں داخل ہونے کی تکلیف اتنی نہیں ہوتی جتنی کہ جب ڈاکٹر دواٸی کو سرنج میں بھرتا ہے اور پھر تین انگلیوں میں تھام کر آپ کی طرف بڑھتا ہے تو لاشعوری طورپرآپکے جسم سےجھرجھری نکل جاتی ہے


       


                 خوف کی بہت ساری اقسام ہوسکتی ہیں ۔بعض اوقات انسان ایسی چیز یا صورت حال سے خوفزدہ ہوتا ہے جو اس کے سامنے ہوتی ہے ۔جیسے رات کے اندھیرے میں انسان پیدل گھر آرہا ہو اور اس کے سامنے کوئی خوفناک درندہ آجائے ۔اب یا تو وہ اسکامقابلہ کرے گا یا پھر کوئی تدبیر نکال کر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرے گا۔ایک اور صورت یہ ہے کہ انسان کے سامنے کوئی چیز نہیں ہوتی لیکن پھر بھی وہ خوفزدہ ہوتا ہے۔جیسے وہ انسان جو ڈراؤنی فلمیں یا ویڈیوز کثرت سے دیکھتا ہے تو اکثر اوقات اکیلے میں اس کو لگتا ہے میرے پیچھے کوئی چڑیل یا دیو کھڑا ہے لیکن جب وہ پیچھے مڑکر دیکھتا ہے تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔


       کبھی انسان مستقبل کے خوف میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔یہ خوف کی بڑی خطرناک قسم ہے۔ یقین کی کمزوری انسان کواس خوف میں مبتلا کردیتی ہے ۔ایسے شخص کا ’حال‘ کتنا ہی شان دار اور نعمتوں سے بھرپور ہو لیکن یہ سوچ سوچ کر اس کی راتوں کی نیند اُڑجاتی ہے کہ معلوم نہیں میرامستقبل کیسا ہوگا؟ یہ خوف اس کے اندر مزید کی تڑپ پیدا کردیتی ہے اور وہ نفس کا غلام بن جاتا ہے۔ 

              آج کی نئی نسل کو یہ فکر ہے کہ ڈگری تو لے لی لیکن نوکری کاکیا ہوگا؟جس جوان کی شادی نہیں ہوئی ، وہ سوچتا ہے کہ شادی کے بعد بچوں کا اور ان کی فیسوں کاخرچہ کیسے اٹھاپاؤں گا؟ یہ سب خوف کی وہ اقسام ہیں جو انسان کو ذہنی طورپر بے حد متاثر کردیتی ہیں




خوف کے اسباب کی اگر بات کی جائے تودوسروں کے ساتھ خود کا موازنہ ایک بڑا سبب ہے۔آج کل ہر شخص اپنے معیارِ زندگی کو بہترکرنا اور دوسروں سے آگے بڑھنا چاہتا ہے اور اسی ریس نے انسان کواس خوف میں مبتلا کرلیا ہے کہ اگر دوسرے لوگ مجھ سے آگے بڑھ گئے تو معاشرے میں میری حیثیت کا کیاہوگا؟


جب انسان کا اپنے رب پر توکل کمزور ہو تو وہ پھر انسانوں سے توقعات وابستہ کرلیتا ہے ۔یہ ایک اور عمل ہے جو انسان کو خوف میں مبتلا کردیتا ہے۔وہ ڈرتاہے اور ہر وقت اس فکر میں مبتلا ہوتاہے کہ اگر فلاں شخص نے میری توقعات کے مطابق میرے ساتھ معاملہ نہ کیا تومیرا کیا ہوگا؟ایکاور چیز جس کا سامنا انسان کو اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کرنا پڑتاہے وہ ہے کاموں کو ٹالتے رہنا۔جب آج کا کام کل کے دِن پر منتقل ہوتا ہے تو وہ انسان میں تناٶ بھی پیدا کردیتا ہے۔انسان سمجھتا ہے کہ آج کے دِن میں نے اس کام سے جان چھڑالی لیکن درحقیقت وہ خود کو خوف کے حصار میں قید کرلیتا ہے ۔


       خوف انسان کی توانائیوں کا دُشمن ہے ۔ہر وہ شخص جو اس کو اپنے دِل و دماغ میں لیے پھرتا ہے ، وہ اپنی معمولی مشکلات کو بھی بہت بڑی بنالیتا ہے۔وہ رِسک لینے سے ڈرتا ہے، وہ دوسروں پراعتماد نہیں کرسکتا، وہ کچھ بڑا نہیں سوچ سکتااور پھر ظاہر ہے کہ کچھ بڑاکر بھی نہیں سکتا۔یہ ایسا زہر ہے جو انسان کے قوت ارادی اور اعتماد کوماردیتا ہے۔


         یاد رکھیں کہ زندگی میں ترقی وہی انسان کرسکتا ہے جو اپنے اوپر اعتماد رکھتا ہے، جو یقین سے بھرپور ہے اورجس کے اندر بہادری ہے۔جبکہ ڈر اور خوف میں مبتلا انسان کو خوش قسمتی سے اگر کوئی اچھا منصب مل بھی جائے تو وہ اس کو برقرار نہیں رکھ پاتا اور بہت جلد تنزلی کا شکار ہوجاتاہے۔


               اچھی بات یہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح کے خوف میں مبتلا ہو، اس کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت اس کے اندر موجود ہوتی ہے۔ماہرین نفسیات نے اس کے لیے کچھ تدابیر بتائی ہیں ۔خوف کے وقت اگر اپنے پانچوں حواس کو متحرک کیا جائے تو انسان بڑی حدتک اس پر قابو پالیتا ہے۔مثلاً کسی صورت حال میں اگرآپ خوف کے مارے بالکل ساکت ہوجاتے ہیں تو اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر ماریں یا اپنی گردن کو سہلائیں۔


      خوف سے نکلنے کا ایک دوسرا اور بہترین طریقہ اپنی پسندیدہ خوشبو یا پرفیوم سونگھنا ہے۔آپ اپنے کالر یاکف پر خوشبو لگائے رکھیں اور جب کسی صورت حال سے ڈرنے لگیں تو اس کو سونگھیں۔تیسرا طریقہ یہ بھی ہے کہ جس چیز سے آپ کو خوف آتا ہے اس کی طرف اپنا ذہن متوجہ نہ کریں۔مثلاً آپ کولفٹ میں چڑھنے سے ڈرلگتا ہے تو لفٹ میں داخل ہونے کے بعد آپ اپنے آس پاس کے لوگوں کو دیکھیں ، ان سے بات چیت کریں ، یا پھر لفٹ کے اندر لگی چیزوں پر غورکریں۔خوف سے نکلنے کے لیے آپ اپنی سننے کی حس کو بھی استعمال میں لاسکتے ہیں۔اپناپسندیدہ نعت ، قوالی ، تلاوت یا کوئی بھی آواز سن کر آپ خود کو خوف کی کیفیت سے باہر لاسکتے ہیں۔


        ایک اور ترکیب جو اکثر کھلاڑی استعمال کرتے ہیں وہ چیونگم چبانا ہے۔یہ دراصل انسانی اعصاب پر تناؤکے حملے کو روکتی ہے اور اس کی وجہ سے انسان خود کو ہلکا محسوس کرتا ہے۔


       اس خطرناک چنگل سے بچنے کے لیے ایک بہترین ہتھیار اللہ پر توکل ہے۔جب انسان اپنی تمام فکروں ، اندیشوں اور خوفوں کو رب کے آگے رکھ دیتا ہے اور اپنے دِ ل میں صرف اس کی محبت اور توکل کو جگہ دے دیتا ہے توپھر اس کی دنیا بھی بہترین ہوجاتی ہے اور آخرت بھی.



             کسی جگہ خوف کھانا ضروری بھی ہوتا ہے اگر آپ میں خدا کا خوف نہیں تو آپ گناٶں جیسے کہ ناپ تول میں کمی ، جھوٹ، چغلی ،غیبت دغابازی وغیرہ سے نہیں بچ سکتے ۔مجرم کو سزا کا خوف نہ ہو تو بے دھڑک جرم کرے۔ اگر آپ غیر ضروری خوف سے نکلنا چاہتے ہیں تو اوپر دی گٸی ہدایت پر عمل کی سعی یعنی کوشش جاری رکھیں اور ساتھ ہی ساتھ خدا کے کلام و صفاتی ناموں سے پا ک ربّ کی حمد و ثناء بیان کریں اور درود پاک کا احتمام بھی۔

الفاظ کا درست استعمال۔

Other Language reader use translator/lens