دو دوستوں کو دریا کی سیرکا شوق تھا، چنانچہ ایک دِن انھوں نے پروگرام بنایا ، وہ دریا کے کنارے جاپہنچے اور ایک ملاح سے کرایہ طے کرکے کشتی میں بیٹھ گئے۔کشتی چل پڑی اور وہ آپس میں گپ شپ کرتے ہوئے دریا کی روانی اور آسمان میں اُڑتے پرندوں سے لطف اندو زہونے لگے ۔
ایک دوست باتونی قسم کا تھا، اس نے ایک نظر اپنے کام میں مصروف ملاح پر ڈالی اور اس کی طرف متوجہ ہوکر پوچھا۔’’چاچاجی آپ یہ کام کب سے کررہے ہیں؟‘‘ ملاح بولا:’’ہم خاندانی ملاح ہیں۔میرا دادا بھی ملاح تھابلکہ اُس کا توانتقال بھی اِسی دریا کے پانی میں ہوا تھا۔‘‘’’اچھا!وہ کیسے؟‘‘ مسافر نے افسوس اور تجسس سے ملے جلے لہجے میں کہا۔’’ایک دِن کشتی کی پتوار ٹھیک کرتے ہوئے اس کا پاؤں پھسلا اوروہ پانی میں جاگرا۔ بدقسمتی سے اُس دِن طغیانی بھی آئی ہوئی تھی ، اس نے کافی دیر تک ہاتھ پاؤں مارے لیکن بچانے والا کوئی نہیں تھا ، چنانچہ دو دِن بعد اس کی لاش ملی۔‘‘ ’’اوہ! یہ تو بڑے افسوس کی بات ہے۔‘‘ مسافر پریشان ہوا لیکن اپنی باتونی طبیعت سے مجبور ہوکر ایک اور سوال پوچھ بیٹھا۔’’اور آپ کا والد؟‘‘ ’’وہ بھی ملاح تھا اور اسی دریا میں ڈوب کر فوت ہوا۔‘‘ملاح کا جواب سن کر مسافر اور بھی رنجیدہ ہوا اور پھر بولا:’’جب یہ اس قدر خطرناک پیشہ ہے تو پھر اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے"؟
ملاح نےدور آسمان کی طرف دیکھا ، ایک لمباسانس لیا اور پھر مسافر سے مخاطب ہوکر بولا:’’اچھا مشورہ ہے مگر ایک سوال میرا بھی ہے۔‘‘ جی جی پوچھیں چاچاجی“ مسافر نے باچھیں پھیلاتے ہوئے کہا۔’’یہ بتاٶ کہ تمھارے دادا کہاں فوت ہوئے تھے؟‘‘ ملاح نے پہلا سوال داغا۔مسافر نے کچھ دیر سوچا اور پھر بولا:’’وہ چارپائی پر فوت ہوئے تھے۔ا ن کی عمر کافی ہوچکی تھی ، آخری دِنوں میں بیماری شدت اختیار کرگئی تھی ، کافی علاج کروایا لیکن افاقہ نہ ہوا اور بالآخر وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔‘‘ ’’ھممم‘‘ ملاح نے سرہلایا اوردوسرا سوال پوچھا۔’’اور تمھارے والد؟‘‘ مسافر کچھ ڈگمگایا، کیونکہ وہ سمجھ چکا تھا کہ ملاح اس کو گھیررہا ہے مگر جواب تو دینا ہی تھا ،سو وہ بولا:’’وہ بھی اپنے باپ کی طرح چارپائی پر فوت ہوئے تھے ۔‘‘ ملاح نے غصے سے کہا:’’جب چارپائی اس قدر خطرناک چیز ہے تو پھر اس کواُٹھاکر پھینک کیوں نہیں دیتے!!‘‘
📝اضافی کمینٹری
یہ کہانی ہے تو کافی پرانی لیکن یہ ایک بہترین نکتے کو بیان کرتی ہے کہ اِس دنیا میں اگر صحیح طریقے سے زندگی گزارنی ہے تو اپنے ڈر اور خوف کو کنٹرول control کرنا ہوگا۔
ایک فطری چیز کو اس سوچ کے ساتھ زبردستی جوڑ دینا کہ اس کی وجہ سے تو فلاں کی جان چلی گئی تھی عقل مندی کی علامت نہیں، کیونکہ اگرسارے انسان اسی سوچ کے مطابق زندگی گزارنے لگ جاٸیں تو پھر دنیاکا نظام ہی نہیں چلے گا۔
انسان جن جذبات و احساسات کے ساتھ پیدا ہوتا ہے ان میں ایک خوف بھی ہے،لیکن ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ انسان فطری طورپر صرف دوچیزوں سے ڈرتا ہے ان میں سے ایک
تیزآواز اور دوسری اونچائی سے نیچے دیکھ کرخوفزدہ ہونا ہے ، اس کے علاوہ باقی خوف والدین ، ماحول اور لوگوں کے پیدا کردہ ہوتے ہیں۔
خوف اس قدر خطرناک چیز ہے کہ یہ انسان کی ساری شخصیت کو تباہ کرکے رکھ دیتا ہے ۔یہ سب سے پہلے انسان کے اعتماد کو ختم کرتا ہے مثلاََ اگر آپ نے گاڑی چلانا سیکھنی ہے اور آپ نے دو تین ایکسڈنٹ accident بھی دیکھے ہیں تو آپ کو بھی یہ خوف ہو گا کہ میرے ساتھ بھی یہی ہو گا اور پھراچھا بھلا ، مضبوط انسان بھی اعتماد سے محروم ہوجاتا ہے۔دوسرا انسان کی عزت نفس کو بھی ختم کردیتا ہے یہ اس کے اندر پلتے حوصلوں اور عزائم کو ماند(کمزور) کردیتا ہے اور انسان نے اپنی زندگی کو شان دار بنانے کے لیے جو بڑے بڑے خواب دیکھے ہوتے ہیں ، ان کوپانے میں ایک بڑی رُکاوٹ بن جاتا ہے۔
انسان کے اندر موجود چند خوف تو وہ ہوتے ہیں جو والدین اپنی لاعلمی کی بناء پر بچپن میں اس کے زہن میں ڈال دیتے ہیں۔جیسے کسی جاندار، درندے ، مخصوص نام یا پھر کوئی فرضی کردار.
بچپن کے اس خوف پر بروقت قابو نہ پالیاجائے تو پھر بڑی عمر کا ہوکر بھی انسان اعتماد اور دلیری سے محروم رہتا ہے۔انسان کی اسی کمزوری کا فائدہ پھر دوسرے لوگ بھی اٹھاسکتے ہیں۔
آپ کو مارکیٹ میں کسی ’’دوغلے Hypocratic‘‘ بندے سے کوئی کام پڑجائے یا پھر کسی نیم حکیم قسم کے ڈاکٹر سے کوئی واسطہ پڑ جاۓ تو وہ آپ کو ایسے ایسے اندیشوں میں ڈال دیں گے کہ پھر آپ کو اپنا مستقبل دھندلانظر آنے لگ جائے گا اور یہی ہیرا پھیری کرکے وہ آپ سے پیسے بٹورنے کے چکر میں لگے ہوتے ہیں۔
اسی انسانی کمزوری کی وجہ سے پوری ایک انڈسٹری چل رہی ہے ۔میڈیا اور سوشل میڈیا کے اشتہاروں میں بالوں کی خشکی سے لے کر لائف انشورنس Life Insurance تک ، ہر جگہ غیر محسوس انداز میں دیکھنے والے کے ذہن میں ’’عدم تحفظ unsecure ‘‘کا احساس پیدا کیا جاتا ہے اور اس کو اپنی پراڈکٹproduct خریدنے کی ترغیب دے کر اس ’’خوف‘‘ سے بچنے کامشورہ دیا جاتاہے۔
’’درد Pain‘‘ انسان کو اتنا نہیں تڑپاتا جتنا اس درد کا خوف انسان کو بزدل بنادیتا ہے۔آپ نے کبھی انجکشن لگوانے کاتجربہ کیا ہوگا ۔سوئی جسم میں داخل ہونے کی تکلیف اتنی نہیں ہوتی جتنی کہ جب ڈاکٹر دواٸی کو سرنج میں بھرتا ہے اور پھر تین انگلیوں میں تھام کر آپ کی طرف بڑھتا ہے تو لاشعوری طورپرآپکے جسم سےجھرجھری نکل جاتی ہے
خوف کی بہت ساری اقسام ہوسکتی ہیں ۔بعض اوقات انسان ایسی چیز یا صورت حال سے خوفزدہ ہوتا ہے جو اس کے سامنے ہوتی ہے ۔جیسے رات کے اندھیرے میں انسان پیدل گھر آرہا ہو اور اس کے سامنے کوئی خوفناک درندہ آجائے ۔اب یا تو وہ اسکامقابلہ کرے گا یا پھر کوئی تدبیر نکال کر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرے گا۔ایک اور صورت یہ ہے کہ انسان کے سامنے کوئی چیز نہیں ہوتی لیکن پھر بھی وہ خوفزدہ ہوتا ہے۔جیسے وہ انسان جو ڈراؤنی فلمیں یا ویڈیوز کثرت سے دیکھتا ہے تو اکثر اوقات اکیلے میں اس کو لگتا ہے میرے پیچھے کوئی چڑیل یا دیو کھڑا ہے لیکن جب وہ پیچھے مڑکر دیکھتا ہے تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔
کبھی انسان مستقبل کے خوف میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔یہ خوف کی بڑی خطرناک قسم ہے۔ یقین کی کمزوری انسان کواس خوف میں مبتلا کردیتی ہے ۔ایسے شخص کا ’حال‘ کتنا ہی شان دار اور نعمتوں سے بھرپور ہو لیکن یہ سوچ سوچ کر اس کی راتوں کی نیند اُڑجاتی ہے کہ معلوم نہیں میرامستقبل کیسا ہوگا؟ یہ خوف اس کے اندر مزید کی تڑپ پیدا کردیتی ہے اور وہ نفس کا غلام بن جاتا ہے۔
آج کی نئی نسل کو یہ فکر ہے کہ ڈگری تو لے لی لیکن نوکری کاکیا ہوگا؟جس جوان کی شادی نہیں ہوئی ، وہ سوچتا ہے کہ شادی کے بعد بچوں کا اور ان کی فیسوں کاخرچہ کیسے اٹھاپاؤں گا؟ یہ سب خوف کی وہ اقسام ہیں جو انسان کو ذہنی طورپر بے حد متاثر کردیتی ہیں
خوف کے اسباب کی اگر بات کی جائے تودوسروں کے ساتھ خود کا موازنہ ایک بڑا سبب ہے۔آج کل ہر شخص اپنے معیارِ زندگی کو بہترکرنا اور دوسروں سے آگے بڑھنا چاہتا ہے اور اسی ریس نے انسان کواس خوف میں مبتلا کرلیا ہے کہ اگر دوسرے لوگ مجھ سے آگے بڑھ گئے تو معاشرے میں میری حیثیت کا کیاہوگا؟
جب انسان کا اپنے رب پر توکل کمزور ہو تو وہ پھر انسانوں سے توقعات وابستہ کرلیتا ہے ۔یہ ایک اور عمل ہے جو انسان کو خوف میں مبتلا کردیتا ہے۔وہ ڈرتاہے اور ہر وقت اس فکر میں مبتلا ہوتاہے کہ اگر فلاں شخص نے میری توقعات کے مطابق میرے ساتھ معاملہ نہ کیا تومیرا کیا ہوگا؟ایکاور چیز جس کا سامنا انسان کو اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کرنا پڑتاہے وہ ہے کاموں کو ٹالتے رہنا۔جب آج کا کام کل کے دِن پر منتقل ہوتا ہے تو وہ انسان میں تناٶ بھی پیدا کردیتا ہے۔انسان سمجھتا ہے کہ آج کے دِن میں نے اس کام سے جان چھڑالی لیکن درحقیقت وہ خود کو خوف کے حصار میں قید کرلیتا ہے ۔
خوف انسان کی توانائیوں کا دُشمن ہے ۔ہر وہ شخص جو اس کو اپنے دِل و دماغ میں لیے پھرتا ہے ، وہ اپنی معمولی مشکلات کو بھی بہت بڑی بنالیتا ہے۔وہ رِسک لینے سے ڈرتا ہے، وہ دوسروں پراعتماد نہیں کرسکتا، وہ کچھ بڑا نہیں سوچ سکتااور پھر ظاہر ہے کہ کچھ بڑاکر بھی نہیں سکتا۔یہ ایسا زہر ہے جو انسان کے قوت ارادی اور اعتماد کوماردیتا ہے۔
یاد رکھیں کہ زندگی میں ترقی وہی انسان کرسکتا ہے جو اپنے اوپر اعتماد رکھتا ہے، جو یقین سے بھرپور ہے اورجس کے اندر بہادری ہے۔جبکہ ڈر اور خوف میں مبتلا انسان کو خوش قسمتی سے اگر کوئی اچھا منصب مل بھی جائے تو وہ اس کو برقرار نہیں رکھ پاتا اور بہت جلد تنزلی کا شکار ہوجاتاہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ انسان کسی بھی طرح کے خوف میں مبتلا ہو، اس کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت اس کے اندر موجود ہوتی ہے۔ماہرین نفسیات نے اس کے لیے کچھ تدابیر بتائی ہیں ۔خوف کے وقت اگر اپنے پانچوں حواس کو متحرک کیا جائے تو انسان بڑی حدتک اس پر قابو پالیتا ہے۔مثلاً کسی صورت حال میں اگرآپ خوف کے مارے بالکل ساکت ہوجاتے ہیں تو اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر ماریں یا اپنی گردن کو سہلائیں۔
خوف سے نکلنے کا ایک دوسرا اور بہترین طریقہ اپنی پسندیدہ خوشبو یا پرفیوم سونگھنا ہے۔آپ اپنے کالر یاکف پر خوشبو لگائے رکھیں اور جب کسی صورت حال سے ڈرنے لگیں تو اس کو سونگھیں۔تیسرا طریقہ یہ بھی ہے کہ جس چیز سے آپ کو خوف آتا ہے اس کی طرف اپنا ذہن متوجہ نہ کریں۔مثلاً آپ کولفٹ میں چڑھنے سے ڈرلگتا ہے تو لفٹ میں داخل ہونے کے بعد آپ اپنے آس پاس کے لوگوں کو دیکھیں ، ان سے بات چیت کریں ، یا پھر لفٹ کے اندر لگی چیزوں پر غورکریں۔خوف سے نکلنے کے لیے آپ اپنی سننے کی حس کو بھی استعمال میں لاسکتے ہیں۔اپناپسندیدہ نعت ، قوالی ، تلاوت یا کوئی بھی آواز سن کر آپ خود کو خوف کی کیفیت سے باہر لاسکتے ہیں۔
ایک اور ترکیب جو اکثر کھلاڑی استعمال کرتے ہیں وہ چیونگم چبانا ہے۔یہ دراصل انسانی اعصاب پر تناؤکے حملے کو روکتی ہے اور اس کی وجہ سے انسان خود کو ہلکا محسوس کرتا ہے۔
اس خطرناک چنگل سے بچنے کے لیے ایک بہترین ہتھیار اللہ پر توکل ہے۔جب انسان اپنی تمام فکروں ، اندیشوں اور خوفوں کو رب کے آگے رکھ دیتا ہے اور اپنے دِ ل میں صرف اس کی محبت اور توکل کو جگہ دے دیتا ہے توپھر اس کی دنیا بھی بہترین ہوجاتی ہے اور آخرت بھی.
کسی جگہ خوف کھانا ضروری بھی ہوتا ہے اگر آپ میں خدا کا خوف نہیں تو آپ گناٶں جیسے کہ ناپ تول میں کمی ، جھوٹ، چغلی ،غیبت دغابازی وغیرہ سے نہیں بچ سکتے ۔مجرم کو سزا کا خوف نہ ہو تو بے دھڑک جرم کرے۔ اگر آپ غیر ضروری خوف سے نکلنا چاہتے ہیں تو اوپر دی گٸی ہدایت پر عمل کی سعی یعنی کوشش جاری رکھیں اور ساتھ ہی ساتھ خدا کے کلام و صفاتی ناموں سے پا ک ربّ کی حمد و ثناء بیان کریں اور درود پاک کا احتمام بھی۔