پرانے زمانے میں ایک قافلہ سفر کے دوران ایک اندھیری سرنگ سے گزرا۔ سرنگ سے گزرتے ہوۓ ان کے پیروں میں بہت سی کنکریاں اور پتھر چبھے ۔ کچھ لوگوں نے اس نیّت سے کہ یہ دوسروں کو نہ چبھ جاٸیں ، وہ کنکڑیاں اور پتھر اپنے پاس محفوظ کرکے رکھ لیے ۔ کچھ لوگوں نے زیادہ جمع کر لیں اور کچھ نے کم اور کچھ نے ایک بھی نہ جمع کی ۔ چلتے چلتے جب اس سرنگ سے باہر آے تو جو کنکڑیاں اور پتھر وہ جمع کر چکے تھے وہ ہیرے جواہرات تھے ،
جنہوں نے وہ کنکڑیاں وغیرہ نہیں اٹھاٸیں وہ پچھتاۓ کہ کیوں نہ اُٹھاٸیں ، اور جہنوں نے کم اٹھاۓ وہ پچھتاۓ کہ ہاٸے زیادہ کیوں نہ اٹھاٸیں اور جہنوں نے زیادہ اٹھاٸیں وہ پچھتاۓ کہ اور سارے کیوں نہ اٹھاٸیں کہ اگلی ساری زندگی آرام سے گزرتی۔
الغرض سب اپنے دل ہی دل میں پچھتاۓ
📝 اضافی کمینٹری
ہماری بھی زندگی اس اندھیری سرنگ کی طرح ہیں ، اور نیکیاں ان کنکروں اور پتھروں کی مانند ہیں ۔ اس زندگی میں جو نیکیاں کیں آخرت وہ ہیرے کی طرح ہونگیں اور بندہ کہے گا کاش اور لاتے۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جسے ہم نیغنیمت کی سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ نیکی نہیں ہوتی ، جیسا کہ ہم نے ایسی جگہ پودا یا درخت لگایا یا کاٹا ، جو کسی اور ملک تھی
انسان ساری زندگی یہی سوچتا ہے کہ ابھی بڑی عمر پڑی ہے بعد میں نیکیاں کریں گے پر موت اک پل کا وقت نہیں دیتی ۔
ابھی دل کی دھرکن بند ہوہی اور بندہ اپنی خواٸشات سمیت ختم۔ اسلۓ جو وقت ہے اسکو غنیمت جانیں۔



