Friday, May 30, 2025

مہنگاٸی


 



ایک بزرگ ہوا کرتے تھے جنکا نام مولانا یوسف رحمہ اللہ تھا ۔ ان کے زندگی میں ایک ایسا وقت آیا کہ مہنگاٸی بہت زیادہ ہو گٸی ، ان کے کچھ جاننے والے عقیدت مند ان سے ملاقات کے لٸے آۓ اور کہا کہ آیا ہم حکومت وقت کے خلاف احتجاج کریں اور بات حکام تک پہنچاٸیں، ان بزرگ نے کہا کہ مظاہرے کرنا ہمارا طریقہ نہیں۔

پھر ان لوگوں کو سمجھایا پھر ” کہ دیکھو! انسان اور چیزیں دونوں الله تعالیٰ کے نزدیک ترازو کے دو پلڑوں کی طرح ھیں ، جب انسان کی قیمت الله تعالیٰ کے یہاں ایمان اور اعمال صالحہ کی وجہ سے بڑھ جاتی ھے تو چیزوں کی قیمت والا پلڑا خودبخود ہلکا ھوکر اوپر اٹھ جاتا ھے اور مہنگائی میں کمی آجاتی ھے۔ 

اور جب انسان کی قیمت الله تعالیٰ کے یہاں اس کے گناہوں اور معصیتوں کی کثرت کی وجہ کم ھوجاتی ھے تو چیزوں والا پلڑا وزنی ھوجاتا ھے اور چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ھیں۔  

لہٰذا تم پر ایمان اور اعمال صالحہ  کی کوشش ضروری ھے تاکہ الله پاک کے یہاں تمہاری قیمت بڑھ جائے اور چیزوں کی قیمت گرجائے۔ 

پھر فرمایا: 

لوگ فقیری سے ڈراتے ھیں حالانکہ یہ شیطان کا کام ھے۔"الشیطان یعدکم الفقر" اس لئے تم لوگ جانے انجانے میں شیطانی لشکر اور ایجنٹ مت بنو۔ 

الله کی قسم ! اگر کسی کی روزی سمندر کی گہرائیوں میں کسی بند پتھر میں بھی ھوگی تو وہ پھٹے گا اور اس کا رزق اس کو پہنچ کر رھے گا، مہنگائی اس رزق کو روک نہیں سکتی جو تمہارے لئے  الله پاک نے لکھ دی ھے۔ 

الله پاک ھمارے گناہوں سے مغفرت فرماٸے۔“

📝اضافی کمینٹری

 اس بلاگ پوسٹ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ لوگ اپنے اعمال کی درستگی کریں، نا کہ سیاسی عمل منقطع کریں اور ۔ کوٸی ایسا راستہ اختیار کیا جاٸے جس سے سانپ بھی مر جاۓ اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ جیسا کہ جو چیز مہنگی ہو اُس چیز کا باٸیکاٹ مثلًا اگر مرغی مہنگی ہے تو مچھلی ، ٹماٹر مہنگے ہوں تو دھی یا سرکہ ، پیٹرول مہنگا ہو تو ساٸیکل یا بس اور آجکل تو الیکٹرک گاڑیاں بھی دستیاب ہیں

        

        چینی مہنگی ہو تو گڑ یا شہد ، انڈے مہنگے ہوں تو مکھن، بجلی مہنگی ہو تو سولر یا بیٹری چارجنگ آٹمز الغرض ہر اُس چیز کا نعم بدلalternateاستعمال کی عادت بناٸیں تو کسی نہ کسی حد تک ہم مہنگاٸی کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہو جاٸیں۔

           دوسرا طریقہ مہنگاٸی سے نبٹنے کا یہ ہے کہ سادگی اختیا ر کریں

گھر میں ٹھنڈے پانی کے لٸے گھڑا رکھیں۔ لوگوں سے مانگ کر یا خرید کر برف استعمال نہ کریں۔ مانگ کر عزت میں کمی اور خرید کر بچت میں کمی ہوگی۔


           ہوٹلنگ اگر زیادہ کرتے ہوں تو کم کریں۔ شاپنگ بیگز کی جگہ گھریلو کپڑے کے بیگز استعمال کریں۔

   گھر اگر تنگ نہ ہو گھر پر سبزیاں پھل اگاٸیں۔

                  اگر ہم بھی بے توکّلی سے بچنا چاہتے ہیں تو اپنی غیر ضروری خواٸشات پر غور کرنا ہو گا اور پھر انہیں ترک بھی کرنا ہوگا۔ مثلاََ پانی ضرورت ہے اگر ہم پانی کی جگہ کوٸی اور مشروب جیسے کہ کوک ، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے جوسس وغیرہ زیادہ استعمال کریں گے تو اپنی صحت اور پیسوں کی بربادی ہے

         


   روز روز بازار نہ گھومیں کہ کسی نہ کسی چیز کو لینے کی خواٸش پیدا ہو گی تو بچت نہ ہو سکے گی۔


           

Friday, May 23, 2025

*ذکر_الٰہی_سے_غافل_پرندہ


 







حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں کسی نے تحفے کے طور پر ایک پرندہ بھیجا جسے آپ نے قبول فرما لیا‘ کافی عرصے تک وہ پرندہ آپ کے پاس ایک پنجرےمیں بند رہا۔

   ایک دن حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اس پرندے کو آزاد کردیا۔ لوگوں نے جب یہ دیکھا تو حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا کہ جناب اتنے عرصے تک تو آپ نے اس پرندے کو پنجرے کے اندر بند کرکے رکھا اور دیکھ بھال کرتے رہے۔ آج اچانک پنجرا کھول کر اسے آزاد کیوں کردیا؟ یہ سن کر حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ آج اس پرندے نے مجھ سے کہا اے جنید! تم تو اپنے دوست احباب کی باتوں سے یوں لطف اٹھاؤ اور مجھے بے مونس و غمخوار کو ایک پنجرے میں یوں بند رکھو؟تو میں نے اسےآزاد کردیا مگر جب وہ پرندہ اڑا تو اس نے کہا ’’اے جنید! پرندے جب تک ذکرالٰہی میں مصروف رہتے ہیں اس وقت تک کسی بھی جال میں نہیں پھنستے لیکن جونہی وہ ذکرالٰہی سے غافل ہوتے ہیں تو فوراً قید میں مبتلا ہوجاتے ہیں‘‘ پھر وہ پرندہ کہنے لگا ’’میں تو ایک ہی مرتبہ ذکرالٰہی سے غافل ہوا تھا کہ اس کی سزا میں برسوں قید رہا‘‘ ہائے جنید! ان لوگوں کی قید کا زمانہ کتنا طویل ہوگیا جو مدتوں تک ذکرالٰہی سے غافل رہتے ہیں۔ اے جنید! میں آپ کے سامنے وعدہ کرتا ہوں کہ اب کبھی ذکرالٰہی سے غافل نہیں ہوؤں گا۔ یہ کہہ کر وہ پرندہ اُڑ گیا اس کے بعد بھی کبھی کبھی وہ پرندہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آتا تھا اور آپ کے دسترخوان پر بیٹھ کر اپنی چونچ سے کچھ کھاتا تھاجب حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا تو آپ کے ساتھ وہ پرندہ بھی تڑپ کر زمین پر گرپڑا اور مرگیا۔ لوگوں نے اس پرندے کو بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ کیساتھ دفن کردیا۔ کچھ دنوں کے بعد کسی مرید نے حضرت کو خواب میں دیکھا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا رب العزت نے مجھے بخش دیا اور مجھ پررحم فرمایا اور کہا تو نے ایک پرندے پر اس کے ذکرالٰہی کرنے کی وجہ سے رحم کیا ہم تجھ پررحم فرماتے ہیں۔ 

📝اضافی کمینٹری

اس واقعہ میں ان لوگوں کیلئے عبرت کا سامان موجود ہے جو ہر وقت ذکرالٰہی سے غافل رہ کر اپنی زبانوں سے لہو ولعب کے کلمات کی ادائیگی میں لگے رہتے ہیں۔

       اس واقعے سے یہ بھی سیکھنے کو ملا کہ پرندہ تب ہی قید میں جاتا ہے جب وہ ذکر خدا سے غافل ہوتا ہے

        تیسرا یہ کہ ہمیں اللّٰہ پاک کی مخلوق پر رحم کرنا چاھیے اور انہیں زاتی لطف و تفریح کے لۓ قید نہ کیا جاۓ، کیونکہ یہ بھی اپنا خاندان و قبیلہ رکھتے ہیں اور ان کو بھی مرضی کی زندگی گزارنے دی جاۓ

           اگر پالنا ہی ہے تو ان کا بچوں سے زیادہ خیال رکھیں ، ان کے کھانے پینے ، رہن سہن ، سردی گرمی دوا دارو کا بندوبست رکھیں۔ اگر ضرورت ہو تو ویٹرنری ڈاکٹر سے بھی رجوع کریں، کیونکہ یہ اپنی بات سمجھا نہیں سکتے۔

کرو رحم تم اہل زمیں پر 

                عرش کا مولا مہرباں ہوتمپر





 

Wednesday, May 7, 2025

عطاہ

 






                    ایک عالم اپنے ایک شاگرد کو ساتھ لئے کھیتوں میں سے گزر رہے تھے

چلتے چلتے ایک پگڈنڈی پر ایک بوسیدہ جوتا دکھائی دیا۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ کسی بڑے میاں کا ہے۔ قریب کے  کسی کھیت کھلیان میں مزدوری سے فارغ ہو کر اسے پہن کر گھر کی راہ لیں گے۔ شاگرد نے جنابِ شیخ سے کہا؛ حضور! کیسا رہے گا کہ تھوڑی دل لگی کا سامان کرتے ہیــــں۔ جوتا ادھر ادھر کر کے خود بھی چھپ جاتے ہیــــں۔ وہ بزرگوار آن کر جوتا مفقود پائیں گے تو ان کا ردِ عمل دلچسپی کا باعث ہو گا۔

               

             شیخ کامل نے کہا؛ بیٹا اپنے دلوں کی خوشیاں دوسروں کی پریشانیوں سے وابستہ کرنا کسی طور بھی پسندیدہ عمل نہیـں۔ بیٹا تم پر اپنے رب کے احسانات ہیــــں۔ ایسی قبیح حرکت سے لطف اندوز ہونے کے بجائے اپنے رب کی ایک نعمت سے تم اس وقت ایک اور طریقے سے خوشیاں اور سعادتیں سمیٹ سکتے ہو۔ اپنے لئے بھی اور اس بیچارے مزدور کے لئے بھی۔ ایسا کرو کہ جیب سے کچھ نقد سکے نکالو اور دونوں جوتوں میں  رکھ دو۔ پھر ہم چھپ کے دیکھیں گے جو ہو گا۔ بلند بخت شاگرد نے تعمیل کی اور استاد و شاگرد دونوں جھاڑیوں کے پیچھے دبک گئے۔


                       کام ختم ہوا، بڑے میاں نے آن کر جوتے میں پاؤں رکھا ۔۔۔ تو سکے جو پاؤں سے ٹکرائے تو ایک ہڑبڑاہٹ کے ساتھ جوتا اتارا تو وہ سکے اس میں سے باہر آ گئے۔ ایک عجیب سی سرشاری اور جلدی میں دوسرے جوتے کو پلٹا تو اس میں سے سکے کھنکتے باہر آ گئے۔ اب بڑے میاں آنکھوں کو ملتے ہیــــں، دائیں بائیں نظریں گھماتے ہیــــں۔ یقین ہو جاتا ہے کہ خواب نہیـں، تو آنکھیں  تشکر کے آنسوؤں سے بھر جاتی ہیــــں۔ بڑے میاں سجدے میں گر جاتے ہیــــں۔ استاد و شاگرد دونوں سنتے ہیــــں کہ وہ اپنے رب سے کچھ یوں مناجات کر رہے ہیــــــــں۔

میرے مولا! میں تیرا شکر کیسے ادا کروں، تو میرا کتنا کریم رب ہے۔ تجھے پتہ تھا کہ میری بیوی بیمار ہے، بچے بھی بھوکے ہیــــں، مزدوری بھی مندی جا رہی ہے ۔۔۔ تو نے کیسے میری مدد فرمائی۔ ان پیسوں سے بیمار بیوی کا علاج بھی ہو جائے گا، کچھ دنوں کا راشن بھی آ جائے گا۔ ادھر وہ اسی گریہ و زاری کے ساتھ اپنے رب سے محو مناجات  تھے اور دوسری طرف استاد و شاگرد دونوں کے ملے جلے جذبات اور ان کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے لبریز تھیں۔ کچھ دیر کے بعد شاگرد نے عرض کیا؛ استاد محترم! آپ کا آج کا سبق کبھی نہیـں بھول پاؤں گا۔ آپ نے مجھے مقصدِ زندگی اور اصل خوشیاں سمیٹنے کا ڈھنگ بتا دیا ہے۔ استاد جی نے موقعِ مناسب جانتے ہوئے بات بڑھائی، بیٹا! صرف پیسے دینا ہی عطا نہیں بلکہ باوجود قدرت کے کسی کو معاف کرنا ﻋﻄﺎﺀ ہے۔ مسلمان بھائی بہن کے لئے غائبانہ دعا  ﻋﻄﺎﺀ ہے۔  مسلمان بھائی بہن کی عدم موجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت ﻋﻄﺎﺀ ہے۔

اضافی کمینٹری

اس واقعے سے پتہ چلا کہ اپنے چند لمحوں کی خوشی کے لہے کسی کو تنگ کرنا خوشی نہیں بلکہ اسکی مدد کر کے جو سکون ملے وہ خوشی ہے ۔اللہ پاک ہمیں بھی حقیقی خوشیاں عطا کرے۔



x

Monday, May 5, 2025

جگر کا ٹکڑا





میں نے بچپن میں 1968 میں ابا سے کہا کہ مجھے ایک بکری لے کر دیں 

ابا نے مجھے بکری پڑوس میں سے خرید کر لے دی ہم نے بکری اپنے گھر لا کر باندھ لی بکری والی اماں گھنٹے بعد آئی مجھ سے پوچھا کہ اسے پانی پلایا ہے میں نے کہا جی پلایا ہے  گھنٹے بعد پھر آئی اور پوچھا اسے گھاس ڈالی ہے میں نے کہا کہ جی ڈالی ہے جب تیسری بار آئی تو میں نے کہا اماں ہم نے تجھے بکری کے  پیسے دئیے ہیں اور بکری خریدی ہے پھر بار بار کیوں پوچھنے آتی ہو۔۔تو وہ رو پڑی۔ بندھی سسکیوں کے ساتھ کہا کہ میں نے اسے بچوں کی طرح پالا ہے ہمیں پیسوں کی اشد ضرورت تھی تو اسے بیچا ہے۔۔۔ مجھے صبر نہیں ہوتا کہ کہیں یہ بھوکی نہ ہو پیاسی نہ ہو۔۔

  📝اضافی کمینٹری

  اس واقعے کو پڑھنے کے بعد ہمیں ایک بات عیاں ہوٸی کہ اگر اک بکری کے ساتھ کچھ عرصہ گزار کر کوٸی اتنا  بے چین و بے قراری محسوس کرتا ہے تو پھر ایک ماں باپ بیٹی کے لئے اس کی پریشانی پر کتنا تڑپیں گے

     اسی طرح بیٹی کو والدین اٹھارہ بیس سال پالتے ہیں  اس کوتعلیم دلواتے ہیں  اور خود سے زیادہ اس کا خیال رکھتے ہیں  اس کی ذرا سی تکلیف برداشت نہیں کر سکتے اس کے لٸے جہیز بناتے ہیں جب ہم سے کوئی رشتہ مانگتا ہے تو سو بار سوچتے ہیں یہ جگر کا ٹکڑا ہے اور پھر جسے ہم بیٹی کا رشتہ دیں اور وہ بےقدری کریں تو کتنا دُکھ ہوتا ہے

اللّٰہ پاک کسی ماں باپ کو بیٹی کے دُکھ نہ دکھائے۔۔

                                 ( شرافت ناز)


            

الفاظ کا درست استعمال۔

Other Language reader use translator/lens