Monday, May 5, 2025

جگر کا ٹکڑا





میں نے بچپن میں 1968 میں ابا سے کہا کہ مجھے ایک بکری لے کر دیں 

ابا نے مجھے بکری پڑوس میں سے خرید کر لے دی ہم نے بکری اپنے گھر لا کر باندھ لی بکری والی اماں گھنٹے بعد آئی مجھ سے پوچھا کہ اسے پانی پلایا ہے میں نے کہا جی پلایا ہے  گھنٹے بعد پھر آئی اور پوچھا اسے گھاس ڈالی ہے میں نے کہا کہ جی ڈالی ہے جب تیسری بار آئی تو میں نے کہا اماں ہم نے تجھے بکری کے  پیسے دئیے ہیں اور بکری خریدی ہے پھر بار بار کیوں پوچھنے آتی ہو۔۔تو وہ رو پڑی۔ بندھی سسکیوں کے ساتھ کہا کہ میں نے اسے بچوں کی طرح پالا ہے ہمیں پیسوں کی اشد ضرورت تھی تو اسے بیچا ہے۔۔۔ مجھے صبر نہیں ہوتا کہ کہیں یہ بھوکی نہ ہو پیاسی نہ ہو۔۔

  📝اضافی کمینٹری

  اس واقعے کو پڑھنے کے بعد ہمیں ایک بات عیاں ہوٸی کہ اگر اک بکری کے ساتھ کچھ عرصہ گزار کر کوٸی اتنا  بے چین و بے قراری محسوس کرتا ہے تو پھر ایک ماں باپ بیٹی کے لئے اس کی پریشانی پر کتنا تڑپیں گے

     اسی طرح بیٹی کو والدین اٹھارہ بیس سال پالتے ہیں  اس کوتعلیم دلواتے ہیں  اور خود سے زیادہ اس کا خیال رکھتے ہیں  اس کی ذرا سی تکلیف برداشت نہیں کر سکتے اس کے لٸے جہیز بناتے ہیں جب ہم سے کوئی رشتہ مانگتا ہے تو سو بار سوچتے ہیں یہ جگر کا ٹکڑا ہے اور پھر جسے ہم بیٹی کا رشتہ دیں اور وہ بےقدری کریں تو کتنا دُکھ ہوتا ہے

اللّٰہ پاک کسی ماں باپ کو بیٹی کے دُکھ نہ دکھائے۔۔

                                 ( شرافت ناز)


            

No comments:

Post a Comment

الفاظ کا درست استعمال۔

Other Language reader use translator/lens